بیجنگ،4ستمبر(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)چین کے صدر شی جن پنگ نے جی 20اجلاس میں شرکت کے لیے آئے عالمی رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہکھوکھلے مذاکرات سے اجتناب کریں۔چینی صدر کے بقول اقتصادی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ بامقصد بات چیت کی جائے۔خیال رہے کہ دنیا کی 20بڑی معاشی طاقتوں پر مشتمل جی 20گروپ کے ممبران کا اجلاس پہلی بار چین میں منعقد ہو رہا ہے۔چین کے صدر نے کہا ہے کہ عالمی معیشت میں بہتری آ رہی ہے تاہم ابھی بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔چین کے شہر ہانژوا میں جی 20 گروپ کے رکن ممالک کے اجلاس کے موقع پر چینی صدر کا کہنا تھا کہ عالمی معیشت کو درپیش مسائل کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کو جی 20اجلاس سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔اجلاس میں دیگر اہم مسائل پر بات چیت کے علاوہ برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کو چھوڑنے کے فیصلے، بین الاقوامی سٹیل کی منڈی کو درپیش بحران اور ایپل جیسی بڑی کمپنیوں کے ٹیکس مامعلات پر بھی غور کیا جائے گا۔جی 20اجلاس سے قبل عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے خبردار کی تھا کہ اس برس بھی عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار کی پیشن گوئی میں کمی امکان ہے۔یاد رہے کہ برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کو چھوڑنے کے حق میں ووٹ آنے کے بعد آئی ایم ایف پہلے ہی رواں برس کے لیے عالمی اقتصادی ترقی کے ٹارگٹ میں کمی کا اعلان کر چکی ہے۔
اس قبل سنیچر کو جی 20اجلاس کے دوران دنیا میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے دونوں بڑے ذمہ دار ممالک، امریکہ اور چین نے عالمی حدت پر قابو پانے کے پیرس معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔چین کی جانب سے اس کا اعلان سنیچر کو چین کے شہر ہانژوا میں جی 20 گروپ کے رکن ممالک کے اجلاس کے موقع پر کیا گیاتھا اور جب امریکی صدر براک اوباما اس اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے تو امریکہ کی جانب سے بھی پیرس معاہدے کی توسیع کا اعلان کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ عالمی حدت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ ہے۔چینی حکام اور وائٹ ہاؤس کے عملے اور دیگر سفارت کاروں کے درمیان محاذ آرائی کی فضا امریکی طیارے ایئر فورس ون کے چینی شہر ہانگ جو میں اترنے کے فورا? بعد ہی سے پیدا ہو گئی تھی۔ اس کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب صدر اوباما کے جہاز سے اترنے اور ریڈ کارپٹ تک پہنچنے کے لیے کوئی سیڑھی موجود نہیں تھی۔ دوسری بد مزگی تب ہوئی جب ایک چینی اہل کار نے امریکی صدارتی مشیر سے اس بات پر بحث کی کہ صدر اوباما کے ساتھ آئے صحافیوں کو کسی بھی مقام پر ان کے آس پاس رہنے سے منع کیا جائے۔ یہ اس روایت کی خلاف ورزی تھی جس کی پاس داری امریکی صدر کیکسی بھی غیر ملکی دورے کے موقع پر کی جاتی ہے۔جب امریکی صدارتی مشیر نے اصرار کیا کہ امریکا اپنے صدر کے لیے ضابطے خود طے کرے گا تو چینی اہل کار نے اس پر بلند آواز میں یہ جواب دیا، یہ ہمارا ملک اور ہمارا ایئرپورٹ ہے۔
یہ تنازعہ اس وقت مزید بڑھ گیا جب ایک دوسرے چینی اہل کار نے صدر اوباما کی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ رائس، جو امریکی حکومت کے اعلی ترین افسران میں سے ایک ہیں، چینی اہل کاروں کی جانب سے خوش آمدید کہنے کے اس انداز پر نا خوش نظر آئیں۔ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں رائس کا کہنا تھا، انہوں نے وہ کیا ہے جس کی ہمیں توقع نہیں تھی۔بعد ازاں صدر باراک اوباما نے ان چینی عہدے داروں کی جانب سے تکرار کے حوالے سے کہا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی اوباما نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جی ٹوئنٹی جیسے بڑے سربراہی اجلاس کی میزبانی میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں اور یہ صرف چین تک محدود نہیں۔ اوباما نے مزید کہا، جب ہم ایسے دوروں پر جاتے ہیں تو اپنی اقدار اور نظریات ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ایسے واقعات کسی حد تک ملکوں کے درمیان تناؤ پیدا کر سکتے ہیں۔کشیدگیوں میں تبادلے کا یہ سلسلہ تب سے ہی جاری ہے جب اوباما نے چینی شہر ہانگ جو میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی تیاری شروع کی تھی۔ سب سے پہلے امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے ایک صحافی کو گلوبل وارمنگ پر ہوئے ایک اجلاس میں داخلے سے نام کے مسئلے پر روک دیا گیا تھا، تاہم بعد ازاں امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر انہیں داخلے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اسی طرح دو چینی عہدے دار، جن میں سے ایک امریکی وفد کی معاونت پر مامور تھا، ایک موقع پر ایک دوسرے سیہاتھا پائی پر اتر آئے تھے اور انہیں الگ کرنا پڑا تھا۔